جب نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کو اللہ عزوجل نے ساری مخلوقات کے لیے ”نبی
رحمت “ بنا کر بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی شانِ رحیمی
وکریمی اس ”صنفِ نازک“ پر کیوں سایہ فگن نہ ہوتی ،
جس کو دنیا ”آبگینہ “ جیسے لطیف ونازک شیء کے ساتھ
تشبیہ دیتی ہے؛ بلکہ نرم اور نازک شی کے ساتھ دنیا
والوں کی رعایت واہتمام بھی زیادہ ہوتا ہے تو آپ کے رحم
وکرم سے ”عورت“ کیوں محروم ہوتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
تعلیمات میں عورت کی رعایت اوراس کی صنفی
نزاکت کے ساتھ احکام موجود ہیں ، موجودہ دور کا اس صنف نازک کے ساتھ یہ
المیہ ہے کہ اس نے عورت کو گھر کی ”ملکہ “ کے بجائے ”شمع محفل “ بنادیا
ہے ، اس کی نسوانیت اور نزاکت کو تار تار کرنے کے لیے ”زینتِ
بازار“ اور اپنی تجارت کے فروغ کا ”آلہٴ کار“ اور ”ذریعہ “ بنادیا،
عورت کے لیے پردہ کے حکم میں در اصل اس کی نزاکت کی رعایت
ہی مقصود ہے کہ اسے مشقت انگیز کاموں سے دور رکھ کر اس کو درونِ خانہ
کی صرف ذمہ داری سونپی جائے ۔
اللہ عزوجل اپنے نبی رحمت صلی
اللہ علیہ وسلمپر نازل کردہ کتاب میں عورتوں کے تعلق سے فرمایا
ہے : ”عاشروھن بالمعروف“ (اور ان عورتوں کے ساتھ خوبی کے
ساتھ گزران کیا کرو)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صنف نازک کے بہترین برتاوٴ
کی تاکید
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے صنف نازک کے ساتھ بہترین سلوک اور برتاوٴ کی تاکید
کی ، خود آپ صلی اللہ علیہ
وسلم بھی عورتوں کے ساتھ اچھابرتاوٴ
اور ان کے ساتھ حسن سلوک فرماتے ۔
خود نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عورتوں کے ساتھ نیکی
، بھلائی ،بہترین برتاوٴ ، اچھی معاشرت کی تاکید
فرمائی ہے ، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ انے فرمایا
: تم میں سب سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ
اچھا برتاوٴ کرتے ہیں ، اورمیں تم میں اپنی خواتین
کے ساتھ بہترین برتاوٴ کرنے والا ہو(ترمذی :کتاب المناقب : باب
فضل ازواج النبی ، حدیث : ۳۸۹۵ )
اور ایک روایت میں نبیِ
کریم صلی اللہ علیہ
وسلم عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی
تاکید کرتے ہوئے فرمایا : حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا : میں تم کو عورتوں کے بارے میں بھلائی کی
نصیحت کرتاہو ں(مسلم : کتاب الرضاع ، باب الوصیة بالنساء ، حدیث
: ۱۴۶۸)
اور ایک روایت میں نبیِ
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور بہترین
برتاوٴ کو کمالِ ایمان کی شرط قرار دیا ہے ، حضرتِ عائشہ
صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسلمانوں میں اس آدمی
کا ایمان زیادہ کامل ہے جس کا اخلاقی برتاوٴ (سب کے ساتھ
)(اور خاص طور سے )بیوی کے ساتھ جس کا رویہ لطف ومحبت کا ہو۔
(المستدرک: کتاب الایمان: حدیث: ۱۷۳)
بیویوں کے ساتھ آپ کا دوستانہ برتاوٴ
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے اپنے ازواج کے ساتھ کس طرح بے تکلف، پر لطف اور دوستانہ تعلقات تھے اسکا
اندازہ مندرجہٴ ذیل واقعات سے لگایا جاسکتا ہے ۔
$ ایک مرتبہ حضور اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ : جب تم مجھ سے راضی
ہوتی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو دونوں حالتوں کا علم مجھے ہوجاتا
ہے ، حضرت عائشہ نے پوچھا کہ : یا
رسول اللہ ! کس طرح علم ہوجاتا ہے ؟ آپ نے فرمایاکہ : جب تم مجھ سے راضی
ہوتی ہوتو ”لا وربّ محمد“(محمد کے رب کی قسم )کے الفاظ سے قسم کھاتی
ہو، اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہوتو ”لا ورب ابراہیم “(ابراہیم
کے رب کی قسم )کے الفاظ سے قسم کھاتی ہو ، اس وقت تم میرا نام
نہیں لیتیں ؛ بلکہ حضرت ابراہیم کا نام لیتی
ہو ، حضرت عائشہ نے فرمایا : (یا رسول اللہ ! میں صرف آپ کا نام
چھوڑتی ہوں )نام کے علاوہ کچھ نہیں چھوڑتی (بخاری: کتاب
الأدب: باب مایجوز من الھجران من عصی، حدیث: ۶۰۷۸)
$ ایک
مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سودہ کے گھر میں تھے اور ان کی باری
کا دن تھا ، حضرت عائشہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک
حلوہ پکایا اور حضرت سودہ کے گھر پر لائیں اور لا کر
حضوراکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے سامنے رکھ دیا ، اور حضرت
سودہ بھی سامنے بیٹھی
ہوئی تھیں ، ان سے کہا کہ تم بھی کھاوٴ،سودہ کو یہ بات
گراں لگی کہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کا جب میرے یہاں باری
کا دن تھا تو پھر یہ حلوہ پکاکر کیوں لائیں؟ اس لیے انھوں
نے کھانے سے انکار کردیا ، حضرت عائشہ نے حضرت سودہ کے منہ پر مل دیا، حضرت سودہ نے حضور صلی اللہ علیہ
وسلم سے شکایت کی تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
قرآن میں آیا ہے کہ ”جزاء سیئة سیّئة مثلھا “یعنی اگر تمہارے ساتھ کوئی
برائی کرے تو تم بھی بدلے میں اسی کے بقدر برائی
کرو ؛ لہٰذا بدلہ میں تم بھی ان کے منہ پر حلوہ مل دو ؛ چنانچہ
حضرت سودہ نے تھوڑا سا حلوہ اٹھا کر حضرت عائشہ کے چہرے پر مل دیا ، اب دونوں کے
چہرے پر حلوہ ملا ہوا ہے ، یہ سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
سامنے ہورہا ہے ، اس دوران حضرت عمر کی آمد ہوئی توحضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو منہ دھونے کو کہا (مسند ابی یعلی:
مسند عائشہ: حدیث:۴۴۷۶، دارالمأمون، دمشق، مجمع
الزوائد: باب عشرة النساء: حدیث: ۷۶۸۳)
$ حضرت
عائشہ سے مروی ہے کہ میں ایک سفر میں حضور صلی اللہ
علیہ وسلم کے ساتھ تھی تو پیدل دوڑ میں حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا مقابلہ ہوا تو میں جیت گئی
اور آگے نکل گئی ، اس کے بعد جب (موٹاپے ) سے میرا جسم بھاری
ہوگیا تو (اس زمانے میں بھی ایک دفعہ )ہمارا دوڑ میں
مقابلہ ہوا تو آپ جیت گئے ، اس وقت آپ نے فرمایا : یہ تمہاری
اس جیت کا جواب ہوگیا(ابوداوٴد: کتاب الجہاد، باب فی
السبق علی الرجل، حدیث: ۲۵۷۸)
$ حضرتِ
عائشہ صدیقہ سے روایت ہے بیان کرتی
ہیں کہ خدا کی قسم ! میں نے یہ منظر دیکھا ہے کہ (ایک
روز )حبشی نابالغ لڑکے مسجد میں نیزہ بازی کر رہے تھے ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
ان کا کھیل دکھانے کے لیے میرے لیے اپنی
چادر کا پردہ کر کے میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہوگئے ، (جو مسجد میں
کھلتا تھا)میں آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے کاندھے درمیان سے ان کا کھیل دیکھتی رہی ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری وجہ سے مسلسل کھڑے رہے ؛ یہاں
تک کہ( میرا جی بھر گیا )اور میں خود ہی لوٹ آئی۔
(مسلم: باب الرخصة فی اللعبة اللتی لا معصیة فیہ فی
ایام العید: حدیث:۸۹۲)
$ حضرت
عائشہ سے روایت ہے
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے پاس نکاح ورخصتی کے بعد آپ کے پاس آجانے کے بعد بھی گڑیوں
سے کھیلا کرتی تھی اور میرے ساتھ کھیلنے والی
میری سہلیاں تھیں ، جب حضرت گھر میں تشریف
لاتے تو وہ (آپ کے احترام میں کھیل چھوڑ کر )گھر کے اندر چھپتیں
تو آپ ان کو میرے پاس بھجوادیتے اور میرے ساتھ کھیلنے لگتیں۔(بخاری:
باب الانبساط الی النّاس، حدیث: ۵۷۷۹)
عورت پر ظلم وزیادتی کی ممانعت
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے صنف نازک کو مارنے پیٹنے یااس کو کسی بھی قسم کی
تکلیف دینے سے سختی سے منع فرمایا: تم میں سے کوئی
اپنی بیوی کو اس طرح نہ پیٹنے لگے جس طرح غلام کو پیٹا
جاتا ہے اور پھر دوسرے دن جنسی میلان کی تکمیل کے لیے
اس کے پاس پہنچ جائے(بخاری: کتاب النکاح، باب ما یکرہ من ضرب النساء،
حدیث: ۲۹۰۸)
ایک دفعہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیویوں
کے حقوق کے متعلق پوچھا گیا تو آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم کھاوٴ تو اس
کو کھلاوٴ ، اور جب تم پہنو تو اس کو پہناوٴ ، نہ اس کے چہرے پر مارو
اور نہ برا بھلا کہو اور نہ جدائی اختیار کرو ، اس کا موقع آبھی
جائے یہ گھر میں ہی ہو(ابوداوٴد: کتاب النکاح، باب فی
حق المرأة علی زوجھا، حدیث: ۲۱۴۳)
آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو مارنے
پیٹنے والوں کو خراب لوگ فرمایا: اپنی بیویوں کو
مارنے والے اچھے لوگ نہیں ہیں ،(ابن حبان :باب معاشرة الزوجین،
حدیث: ۱۴۸۹) اور خود نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی
بیویوں میں سے کسی پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا،(مسلم:
باب مباعدتہ، حدیث: ۲۳۴۸)
عورت کے حقوق کی رعایت کی تاکید
جس طرح مرد یہ چاہتا ہے کہ بیوی
اس کے لیے بناوٴ وسنگار کرے ،اسی طرح مرد کو بھی عورت کے
لیے بناوٴ سنگار کرنا چاہیے ،صاف ستھرا رہناچاہیے!
ابن عباسفرمایا کرتے تھے کہ میں یہ
پسند کرتا ہوں کہ اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لیے میں
بھی اپنی زینت کروں جس طرح وہ مجھے خوش کرنے کے لیے اپنا
بناوٴ سنگھار کرتی ہے ؛ چونکہ ارشادِ باری عزوجل ہے : وَلَھُنَّ
مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (البقرة: ۲۲۸)(اور
عورتوں کا بھی حق ہے جیسا کہ مردوں کا حق ان پر ہے دستور کے مطابق )میں
یہ نہیں چاہتا کہ وہ تومیری تمام حقوق کی ادائیگی
کرے ، حالانکہ اللہ عزوجل کا ارشا دہے کہ
”وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَةٌ“ (اور مردوں کوعورتوں پر فضیلت ہے
)(السنن الکبریٰ للبیہقی: باب حق المرأة علی الزوج،
حدیث: ۱۵۵۰۵)یعنی جس طرح مرد کو
ہر اعتبار سے عورت پر فضیلت حاصل ہے ، اسی طرح اسے اخلاق کے اعتبارسے
بھی اس پر فضیلت ہوناچاہیے ۔
ابویوسف سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ جیسے مجھے یہ
پسند ہے کہ میری بیوی میرے لیے زینت کرے
،اسے بھی یہ اچھا لگتا ہے کہ میں اس کے لیے زینت
کروں ”کما یعجبنی أن تتزین لی
زوجتی یعجبھا أن اتزین لھا (الفتاوی الھندیة: ۵/۲۵۹)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ازواج کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے
حضراتِ انبیاء اہلِ خانہ کی
ضروریات کا خیال کرتے تھے ،چنانچہ حضرت موسیٰ اللہ کے پیغمبر ہیں ، ان کی بیوی بیمار
حالت میں ہیں ، انھیں سردی لگی اور وقت کے پیغمبر
آگ ڈھونڈنے کے لیے چل پڑے ، پرودگار کو پسند آیا اور نبوت سے سرفراز
فرمایا ۔
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ
مبارکہ تھی، کبھی گھر میں آٹا گوندھ دیتے ، گھر کی
دیگر ضروریات پوری کرتے ، حضرت عائشہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کے گھر میں معمولات کے بارے میں پوچھا ، تو انھوں نے بتایا کہ :
”اپنے سر سے جوئی نکالتے ، اپنی بکری کا دودھ دوہتے ، اپنے کپڑے
سی لیتے ، اپنی خدمت خود کرلیتے ، اپنے جوتے سی لیتے
اور وہ تمام کام کرتے جو مرد اپنے گھر میں کرتے ہیں، وہ اپنے گھر
والوں کی خدمت میں لگے ہوتے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تھاو چھوڑ کر چلے
جاتے (ترمذی: باب مما فی صفة اوانی الحوض: حدیث: ۲۴۸۹)
بچیوں کی پرورش کی فضیلت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ
رحم وکرم نہ صرف ازواج کے ساتھ مخصوص تھا؛ بلکہ پوری صنف نازک کے ساتھ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے بہترین برتاوٴ کا حکم کیا ، قبل از
اسلام عرب میں لڑکیوں ں کو زندہ درگور کرنے کا رواج تھا، لڑکی کی
پیدائش کو باعث ننگ وعار باور کیا جاتا، جیسا کہ قرآن مجید
نے خود اس کی منظر کشی کی ہے ”وَ اِذَا
بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْھُہ مُسْوَدًّا وَّھُوَ
کَظِیْمٌ، یَتَوَارَیٰ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءِ مَا
بُشِّرَ بِہ“ (سورة النحل: ۵۸) جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی
خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ
غصہ سے بھر جاتا ، لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس برائی کی خوشخبری
کے سبب سے جو اسے دی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ
صرف عورت کو جینے کا حق دیااور اس کو معاشرہ میں بلند مقام عطا
کیا ؛ بلکہ عورت کے وجود کو خیر وبرکت کا باعث او رنزول رحمت کا ذریعہ
اور اس کی نگہداشت اور پرورش کو دخولِ جنت کا ذریعہ بتایا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت
ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
: جس مسلمان کی دو بیٹیاں ہوں ، پھر جب تک وہ اس کے پاس رہیں
یا یہ ان کے پا س رہے اور وہ ان کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرے تو وہ
دونوں بیٹیاں اس کو ضرور جنت میں داخل کرادیں گی
(ابن حبان: باب ما جاء فی الصبر والثواب، حدیث:۲۹۴۵)
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے دو لڑکیوں کی پرورش اور دیکھ
بھال کی وہ شخص اور میں جنت میں اس طرح اکٹھے داخل ہوں گے جیسے
یہ دو انگلیاں۔ یہ ارشاد فرما کر آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ فرمایا ۔ (ترمذی:باب
ما جاء فی النفقة علی البنات والاخوات، حدیث: ۱۹۱۴)
حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس شخص نے ان بیٹیوں
کے کسی معاملہ کی ذمہ داری لی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا
تو یہ بیٹیاں اس کے لیے دوزخ کی آگ سے بچاوٴ
کا سامان بن جائیں گی (بخاری: باب رحمة الولد، حدیث:۵۹۹۵)
عورتوں کی کوتاہیوں سے درگذر کا حکم
نہ صرف یہ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ بہترین سلوک اور برتاوٴ کا حکم
دیا ؛ بلکہ اس کی کمی کمزوری اور خاص مزاجی کیفیت
کی وجہ سے پیدا ہونے والی تکالیف کو انگیز کرنے کی
بھی تاکید فرمائی:
اسی کو اللہ عز وجل نے یوں
فرمایا : وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ، فَاِنْ
کَرِھُتُمُوْھُنَّ شَیْئاً فَعَسَیٰ أَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئاً
وَیَجْعَلُ اللہُ فِیْہِ خَیْراً کَثِیْراً “(النساء: ۱۹)اور ان عورتوں کے
ساتھ حسن وخوبی سے گذر بسر کرو اور اگر تم کو وہ ناپسند ہو ں تو ممکن ہے کہ
تم ایک چیز ناپسند کرو اور اللہ تعالی اس کے اندر بڑی
منفعت رکھ دے ۔
اسی کو ایک روایت میں
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کوئی مسلمان مرد کسی
مسلمان عورت کو اس لیے مبغوض نہ رکھے کہ اس کی کوئی عادت
ناگوارِ خاطر ہے ؛ اس لیے کہ اگر ایک عادت ناپسند ہے تو ممکن ہے کوئی
دوسری عادت پسند آجائے(مسلم: باب الوصیة بالنساء، حدیث: ۱۴۶۹)
ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ
کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے ساتھ خصوصیت سے رحم
و کرم کا معاملہ فرمایا، اس کی صنفی نزاکت کو ملحوظ رکھ کراس کے
ساتھ رحم وکرم کرنے کا حکم دیا، اس پر بار اور مشقت ڈالنے سے منع فرمایا،
اس پر بے جاسختی سے روکا؛ اس کوقعر مذلت سے نکال عزت ووقار کا تاج پہنایا،
ماں، بہو، ساس ، بیوی وغیرہ کی شکل میں اس کے حقوق
عنایت کیے ، اس کی تعظیم واکرام کا حکم کیا، اس کی
پرورش وپرداخت اور اس کی نگرانی اور دیکھ بھال کو جنت کا وسیلہ
اور ذریعہ فرمایا، یہ صنف نازک کے ساتھ نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کریم کا طرز وعمل تھا۔
$ $ $
------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ5، جلد:
99 ، رجب 1436 ہجری مطابق مئی 2015ء